ںوجوانوں کی ذہنی صحت کیلئے موبائل پروگرام کا اجرا

مفت ٹم ہارٹن گفٹ کارڈ $20 قرعہ اندازی میں شامل ہونے کیلےسبسکرائیب کریں

جیلیسا بائی گریو کے مطابق جب وہ بڑے ہورہی تھیں اس وقت سیاہ فام، قدیم مقامی اور دیگر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ذہنی صحت بحال رکھنے سے متعلق کوئی بندوبست نہیں تھا۔
جیلیسا اس وقت خود ایک ذہنی صحت کارکن ہیں اور ہیملٹن میں سیاہ فام و دیگر رنگ و نسل کے افراد کے لیے متعارف کروائے گئے موبائیل مینٹل ہیلتھ پروگرام کا حصہ ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اس پروگرام سے ثمرات ملنا شروع ہوچکے ہیں۔

جیلیسا کہتی ہیں کہ، ‘ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی رویوں کے تجربات سے متعلق کھل کر بات کرنے کا موقع ملنے اور ان کی باتوں کو سنجیدہ لیے جانے پر راحت محسوس کرتے ہیں۔’
سینٹ جوزف ہیلتھ کیئر ہملٹن نے سیاہ فام اور دیگر رنگ نسل کے افراد کی ذہنی صحت کی بحالی کے لیے یو تھرائیو نامی نیا موبائیل مینٹل ہیلتھ پروگرام متعارف کروایا ہے۔
یوتھ ویلنس کلنک کی مینیجر لسا جیفس کہتی ہیں کہ، یوتھ ویلنس کلنک نے سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل کے نوجوانوں سے گزشتہ برس نسلی امتیاز سے نمٹنے کے حوالے سے بات کی جس کے بعد اندازہ ہوا کہ انہیں ذہنی صحت کی بحالی میں مزید مدد درکار ہے۔

اس پروگرام میں شامل معالجین کی ایک چھوٹی ٹیم ہر ہفتے دوپہر اور شام کے پہروں میں اسکولوں، مساجد اور ثقافتی مراکز پہنچ کر براہ راست نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرے گی۔
یوتھرائیو نامی پروگرام کو ہملٹن ریجنل انڈین سینٹر اور تھرائیو چائلڈ اینڈ یوتھ ٹراما سروسز کی شراکت داری حاصل ہے۔
جیفس کے مطابق اس پروگرام کے تحت ذہنی صحت سے جڑے مسائل اور عادات سے متاثرہ نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد کے لیے کمیونٹی اداروں کو انسداد امتیازی سلوک اور انسداد جبر کے حوالے سے تربیت فراہم کی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ یوتھرائیو پروگرام تکمیل کے مراحل میں ہے۔ فی الحال خاندانوں کے لیے خصوصی ورک شاپ کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور پروگرام کے اہداف متعین کیے جا رہے ہیں تاکہ اس کی کامیابی کی پیمائش کی جاسکے۔
‘میرے خیال میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے اس لیے ہمیں وقت کے ساتھ زیادہ سیکھنے کو ملے گا اور ہمیں ہر علاقے کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے جتنا ممکن ہوسکے اتنا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔’

جیفس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے صحت مراکز میں نسلی امتیاز سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے کیونکہ وہاں یہ سوال کم ہی پوچھا جاتا ہے کہ نسل اور نسلی امتیاز کس طرح کسی کی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔
عالمی وبا میں سیاہ فام طلبہ کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں
چیڈ مک فرسن اور مائیکل ابراہم ہملٹن وینٹ ورتھ ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ میں سیاہ فام طلبا کے گریجویشن کوچز کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے طلبہ کو عالمی وبا کے بعد پہلے سے زیادہ ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
مک فیرسن کے مطابق، اسکول بچوں کو یہ سکھاتا ہے کس طرح روٹین بنائی جائے، کس طرح مختلف معاملات سے نمٹا جائے وغیرہ مگر عالمی وبا کے بعد بچوں کی روٹین بری طرح متاثر ہوچکی ہے اور طلبہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہا ہے کہ مختلف معاملات سے کس طرح نمٹا جائے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے سپورٹ سروسز تک رسائی میں پہلے سے زیادہ رکاوٹیں پیدا ہوچکی ہیں۔
ابراہم کہتے ہیں کہ، جن طلبہ سے میں رابطے میں ہوں ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے فیملی ڈاکٹرز یا نئے ڈاکٹرز سے سپورٹ چاہیے۔
طلبہ ذہنی صحت، انگزائٹی اور ڈپریشن کے موضوعات پر زیادہ بات کرنے لگے ہیں۔
ہملٹن پبلک ہیلتھ سروسز کے مطابق اگرچہ شہر کی آبادی کا 20 فیصد حصہ مختلف رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہے مگر اس کے باوجود مقامی کورونا کیسوں میں 50 فیصد تعداد انہی افراد پر مشتمل ہے۔
سیاہ و دیگر رنگ و نسل کے نوجوانوں کا اعتماد حاصل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے

بائی گریو کہتی ہیں کہ وہ اس وقت 10 کلائنٹس دیکھ رہی ہیں اور لوگ ان کے پاس دیگر متاثرہ افراد بھیج رہے ہیں.
اگر نوجوانوں کی اکثریت ابتدائی طور پر اس پروگرام سے فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہتی تو بھی یہ باعث فکر بات نہیں ہے۔
بائی گریو کا ماننا ہے کہ سیاہ فام، قدیم مقامی اور مختلف نسلی شناخت سے نوازے گئے افراد کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا تاکہ وہ ہمارے پروگرامز اور خدمات سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ان کا بھروسہ جیتنے میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ شاید وہ اس سہولت کو بھی ایک عام روایتی صحت کی سہولت تصور کرتے ہوں۔
ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ رابطے قائم کریں اور ہر ہفتے مختلف علاقوں کے کونے کونے تک پہنچیں تاکہ ہم خود متاثرہ افراد تک پہنچ کر ان کی مدد کرسکیں۔

About محسن عباس 41 Articles
محسن عباس کینیڈا میں بی بی سی اردو، ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے اخبارات کیلئے لکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امیگریشن ، زراعت اور تحقیقی صحافت میں بیس برس سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔