’یہ خواتین کینیڈا خوفزدہ ہونے نہیں بلکہ بہتر اور محفوظ زندگی گزارنے آئی ہیں‘

مفت ٹم ہارٹن گفٹ کارڈ $20 قرعہ اندازی میں شامل ہونے کیلےسبسکرائیب کریں

، محسن عباس

’یہ خواتین کینیڈا اس لیے آئی تھیں تاکہ وہ ایک بہتر اور محفوظ زندگی گزار سکیں، خوفزدہ ہونے کے لیے نہیں۔‘

کینیڈا کے شہر لندن میں پاکستانی نژاد خاندان کے چار افراد کے قتل کے بعد ملک میں نفرت پر مبنی جرائم کے حوالے سے تشویش بڑھ رہی ہے اور حالیہ دنوں میں کم از کم چار ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے یہاں بسنے والے مسلمان غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔

حال ہی میں صوبہ اونٹاریو کے ایک اور قصبے میں پولیس نے ایک مسلمان خاندان پر نفرت پر مبنی جملے کسنے اور قتل پر اکسانے والی ایک وائرل ویڈیو پر تفتیش شروع کر دی ہے۔

اونٹاریو میں واقع منٹو قصبے کے علاقہ ہیرسٹن میں ایک شخص نے لندن واقعے کے بعد یہ ٹک ٹاک ویڈیو بنائی تھی۔

وہ بظاہر اپنے گھر کی کھڑکی کے باہر سڑک پر چلنے والے ایک مسلمان خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے لندن حملہ آور کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ’جب ان کی ضرورت ہے تو وہ

کہاں ہے۔‘

اس کے بعد جب پیدل چلتے خاندان، جس میں بچے اور خواتین شامل ہیں، کے قریب سے ایک ٹرک گزرتا ہے تو ویڈیو بنانے والا شخص کہتا ہے ’ارے دوست، پیچھے آؤ۔ تم نے انھیں جانے دیا۔۔۔‘

یہ ویڈیو ہیرسٹن کے ایک رہائشی نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تو یہ وائرل ہو گئی اور اس کے بعد متاثرہ خاندان کے ایک شخص نے اسے دیکھا اور پہچان لیا۔

احمد المحمد کے مطابق انھوں نے اس مواد کی اطلاع مقامی پولیس کو دی اور انھوں نے اس حوالے سے اپنے ایک کینیڈین دوست کو بھی آگاہ کیا۔

چند گھنٹوں بعد ہی پولیس نے ویڈیو بنانے والے شخص کو ڈھونڈ نکالا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

تین چھوٹی آبادیوں پر مشتمل، تقریبا نو ہزار آبادی والا یہ چھوٹا سا قصبہ ٹورنٹو شہر سے شمال مغرب میں 169 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہاں کی اکثریت سفید فام افراد پر مشتمل ہے اور زیادہ تر افراد زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ہیرسٹن کی آبادی سترہ سو کے لگ بھگ ہے اور اس علاقے میں صرف چار مسلمان خاندان آباد ہیں۔ قریب واقع دیگر چھوٹی کمیونٹیوں میں بھی اسی طرح تین چار مسلمان خاندان آباد ہیں اور اس علاقے میں کُل 15 مسلمان خاندان بستے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام سے ہے۔ یہ خاندان سنہ 2017 میں کینیڈا منتقل ہونے کے بعد ان قصبوں میں آباد ہوئے۔

متاثرہ خاندان کے فرد احمد المحمد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’پولیس کو اطلاع ملتے ہی وہ پندرہ منٹ میں ہماری مدد کو پہنچ گئے۔ اس ویڈیو کی وجہ سے خواتین خوفزدہ ہیں۔ وہ اس ملک میں بہتر زندگی کیلئے آئی ہیں نہ کہ خوف میں زندگی گزارنے۔ مسلمان عورتوں کو بھی آزادانہ زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہمیں بہت حیرانی ہوئی کہ اتنی چھوٹی کمیونٹی میں ہمارے ساتھ ایسا واقعہ ہوا۔‘

احمد نے مزید کہا کہ ’اب تک ہم یہاں محفوظ محسوس کر رہے تھے مگر اب لندن شہر میں دہشت گردی کی واردات کے بعد بے یقینی کا شکار ہیں۔‘

منٹو قصبے کے مئیر جارج برج کو اس واقعہ نے بہت مایوس کیا ہے۔ جونہی ان کی ٹیم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے فوراً ایک ریلی کا اہتمام کیا۔

انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ ہماری چھوٹی سی کمیونٹی میں ہوا تو ہمیں اس کا افسوس ہوا کیونکہ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہماری اس ریلی کا مقصد تمام رنگ ونسل کے لوگوں کیلیے تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔‘

’ہم تارکین وطن کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے اور ہمارے علاقے کی تیزی سے ہوئی ترقی میں تارکیں وطن کا بڑا کردار ہے۔ میں بھی تارکین وطن خاندان کی اولاد ہوں اور ہمیں مزید تارکین وطن کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ریلی بہت ضروری تھی تاکہ منفی تاثر کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

پیگی رافٹیس اس قصبے کی ثقافتی راؤنڈ ٹیبل کمیٹی کی چئیرپرسن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس ریلی کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ منٹو قصبہ ہر طرح کے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ہم مسلمان خاندانوں کے ساتھ ہیں۔‘

’وہ (مسلمان) ہماری کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ ہماری توقع سے زیادہ لوگ اس ریلی میں شریک ہوئے۔ ہم ہر رنگ اور نسل کے امتزاج پر یقین رکھتے ہیں۔‘

ویلنگٹن کاؤنٹی او پی پی ( انٹاریو صوبائی پولیس) کے کانسٹیبل کرک میکڈونلڈ نے ریلی کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ویڈیو لگانے والے شخص اور یہ کہاں سے اپ لوڈ ہوئی، اس کا پتہ لگا لیا گیا ہے۔ ’ابھی تفتیش جاری ہے اور تفتیش کار اٹارنی دفتر سے اس بارے میں رابطے میں ہیں۔‘

پولیس نے عوام سے کہا ہے کہ اس قسم کی کسی بھی واردات کے بارے میں فوراً پولیس کو اطلاع کریں تاکہ ایسی نفرت انگیز وارداتوں کو روکا جا سکے۔

سینکڑوں افراد پر مشتمل اس ریلی میں بچوں، بوڑھوں کی شرکت نمایاں تھی۔ ریلی میں لندن میں ہلاک ہونے والے خاندان کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی گئیں اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کے خلاف کچھ ایسے ہی دیگر واقعے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سامنے آئے ہیں۔

رواں ہفتے ٹورنٹو شہر کے علاقے سکاربورو کی ایک مسجد ’اسلامک انسٹیٹیوٹ آف ٹورنٹو‘ میں ایک مرد اور ایک عورت نے زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تو مسجد کے سکیورٹی اہلکاروں نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ جس کے بعد دونوں افراد کو ٹورنٹو پولیس نے گرفتار کر لیا۔

پولیس کے مطابق دونوں ملزمان نشے کی حالت میں تھے۔ مرد نے عمارت کو دھماکے سے اڑانے جبکہ عورت نے مسجد کے عملے کو گولی مارنے کی دھمکی دی۔ جس پر مسجد کے عملے نے پولیس کو اطلاع دی۔

ٹورنٹو کے رہائشی اس مرد اور عورت کے خلاف مقدمے میں نقب زنی، جان سے مارنے کی دھمکی اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی دفعات لگائی گئی ہیں۔

دوسری جانب البرٹا صوبے کے شہر ایڈمنٹن کی ایک مسجد کی دیوار پر شرپسند عناصر سواستیکا (نازی پارٹی کا نشان) بنا گئے۔ پولیس اس معاملے کی تفتیش بھی کر رہی ہے۔

گذشتہ جمعے کی شام کینیڈا کے مغربی صوبے البرٹا کے شہر ایڈمنٹن میں ہی ایک پچاس برس کی حجاب لینے والی صومالی نژاد مسلمان عورت پر بھی حملہ کیا گیا۔ ایک نامعلوم شخص نے اس عورت کی گردن دبائی اور پھر اس کو سڑک پر پٹخ دیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شام نو بجے کے قریب مذکورہ خاتون نارتھ ماؤنٹ کے علاقے میں چہل قدمی کرنے نکلی تھیں۔ خاتون کو زخمی حالت میں مقامی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ایڈمنٹن پولیس اس نفرت انگیز واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔

ٹھیک اسی روز برٹش کولمبیا صوبے کے سب سے بڑے شہر وینکوور میں بھی بس سٹاپ پر کھڑی ایک حجاب پوش خاتون کو ایک شخص نے پریشان کیا اور ڈرایا دھمکایا۔ یہ سارا معاملہ سی سی ٹی وی کیمرہ پر ریکارڈ ہو گیا۔

یاد رہے کہ کینیڈا میں سنہ 2017 میں صوبے کیوبک کی ایک مسجد پر حملے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں تیزی آئی ہے۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔