“کینیڈین انٹیلجنس ایجنسی کے اندر نسلی امتیازقومی سلامتی کیلئے خطرہ”

مفت ٹم ہارٹن گفٹ کارڈ $20 قرعہ اندازی میں شامل ہونے کیلےسبسکرائیب کریں

کینیڈین سیکیورٹی انٹیلجنس سروس (سی ایس آئی ایس) سے بطور سینئر انٹیلی جنس افسر وابستہ رہنے والی ایک مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں ادارے میں نظامی سطح پر نسلی امتیاز برتا گیا اور وہاں نسلی تنوع کا فقدان دیکھنے کو ملا، اگر اس رجحان کو بالخصوص کنیڈیائی مسلمان خاندان پر ہونے والے حالیہ جان لیوا حملے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ قومی سلامتی کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم محسوس نہیں ہوتا۔
حجاب پہننے اور عربی بولنے والی ہدیٰ مکبل کہتی ہیں کہ انہیں ایک داخلی خطرے کے طور دیکھا گیا اور سی ایس آئی ایس کے 15 سالہ کریئر کے دوران ان کے عقیدے سے متعلق پوچھ گچھ بھی کی گئی۔
مکبل کے مطابق انہیں مسلم تنظیموں سے وابستگی ختم کرنے پر مجبور کیا گیا، دفتر میں ان سے دوری رکھی گئی اور ان کے ساتھ درجہ دوم کے شہری جیسا سلوک روا رکھا گیا۔ انہوں نے 2017 میں سی ایس آئی ایس پر امتیازی سلوک کے الزامات لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کیا اور ادارے سے مستعفیٰ ہوگئیں۔
اوٹاوا ساؤتھ میں وفاقی این ڈی پی کی امیدوار کی حیثیت میں انتخاب لڑنے کی خواہشمند نکبل نے سی بی سی نیوز کو بتایا کہ، ‘یہی وجہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو سے نمٹنے کے لیے اس ادارے کی کوششوں پر مسلم کمیونٹی بھروسہ ہی نہیں کرتی۔’
‘اعتماد میں کمی کی وجہ ادارے میں نسلی تنوع کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں مجھ جیسے افسران کا فقدان ہے جو اس طرح کھل کر ان لوگوں سے بات کرنے کی جرات رکھتے ہیں جو ان سے ملتے جلتے تجربات سے گزرچکے ہیں۔ کچھ کردکھانے کا یہی درست موقع ہے۔’
6 جون کو لندن، اونٹاریو سے تعلق رکھنے والے مسلم خاندان کو ٹرک سے کچلنے والا ملزم مختصر وقت کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہوا۔ 4 لوگوں کی زندگیاں لینے اور ایک 9 سالہ لڑکے کو تشویش ناک حالت میں زخمی کردینے والے اس واقعے کے ذمہ دار کو قتل اور دہشتگردی کے الزامات کا سامنا ہے۔

‘سی ایس آئی ایس الیگزینڈر بسونیٹ کے واقعے کا سراغ کیوں نہیں لگاسکا’
گزشتہ 4 برسوں کے دوران کینیڈا میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا یہ دوسرا بڑا جان لیوا واقعہ ہے۔

ء 2017 میں الیگزینڈر بسونیٹ نے کیوبیک سٹی مسجد میں فائرنگ کرکے 6 لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔ تفتیش سے پتا چلا کہ فائرنگ کرنے والا شخص آن لائن ذرائع سے انتہاپسند کی طرف راغب ہوا تھا اور انتہائی دائیں بازو کی میڈیا کا صارف تھا۔
مکبل کہتی ہیں کہ، ‘سی ایس آئی ایس الیگزینڈر بسونیٹ کے واقعے کا سراغ کیوں نہیں لگاسکا۔ وہ شخص آن لائن تھا۔ وہ انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں سے رابطے میں تھا۔’
جب سی ایس آئی ایس سے تبصرے کے لیے کہا گیا تو ادارے کی جانب سے براہ راست مکبل کے دعووں کا جواب نہیں دیا گیا۔ ان کا یہ کہنا ضرور تھا کہ یہ ادارہ کینیڈا کے کسی دوسرے ادارے سے پہلے پرتشدد شدت پسندی یا دہشتگردی کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے والے خطرات ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہتے ہیں۔
خفیہ ادارے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ وگنالٹ نے گزشتہ برس یہ اعتراف کیا تھا کہ سی ایس آئی ایس میں داخلی نسلی امتیاز کا مسلئہ پایا جاتا ہے۔
2020 میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ‘جی ہاں، یہاں نظامی سطح پر نسلی امتیاز وجود رکھتا ہے اور ادارے کے اندر ایک حد تک ہراسانی اور انتقامی کارروائی کا خوف پایا جاتا ہے۔’
سی ایس آئی ایس نے سی بی سی نیوز کو انٹرویو کی اجازت تو نہیں دی البتہ وگالٹ نے اپنے ایک بیان میں لکھا کہ ‘وسیع تر نسلی تنوع اور سب کو مساوی مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانا میری اہم ترجیحات میں شامل ہیں۔’
‘میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سی ایس آئی ایس کینیڈا میں مقیم سرگرم عمل مختلف کمیونٹیز کا مظہر ہے، جس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ یہ ایک اچھا کام ہے بلکہ کینیڈا کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔’

‘مجھے ایسا لگا کہ جیسے سی ایس آئی ایس میں مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے

مکبل کے مطابق انہوں 2002 میں سی ایس آئی ایس کی انسداد دہشتگردی کے شعبے میں کام کرنے گئیں۔ ان کے بقول وہ سی ایس آئی ایس کی پہلی حجاب پہننے والی سیاہ فام عرب انٹیلی جنس افسر ہیں۔ ان کے مطابق ابتدائی طور پر اوٹاوا ہیڈکواٹرز میں ان کے ساتھ اچھا رویہ روا رکھا گیا۔
تاہم دو سالوں بعد سب کچھ بدل گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ، ‘2004 میں کینیڈا میں دہشتگردی کا خطرہ القاعدہ کے بجائے نوجوان کینیڈیائی مسلمانوں کی دوسری اور تیسری نسل میں دیکھا جانے لگا۔’ انہوں نے بتایا کہ خود انہیں بھی ایک داخلی خطرہ محسوس کیا گیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ، ‘میں نے خود ایسا محسوس کیا کہ جیسے سی ایس آئی ایس میں مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا ادارہ میرا مخالف بن چکا ہے اور میں نے خود کو تنہا محسوس کیا۔’
وہ کہتی ہیں کہ برطانیہ میں تعیناتی اور ایم آئی 5 کی مدد کے بعد انہیں اندازہ ہوا بطور مسلم، عربی بولنے والی انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے لندن میں 2005 میں 56 افراد کی جانیں لینے والے بم حملوں کے بعد لیڈز کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سینئر افسران میں شامل برطانوی ڈپٹی وزیراعظم نے ذاتی طور پر ان کی خدمات کے لیے شکریہ ادا کیا۔
مگر جب مکبل بطور تفتیش کار ٹورنٹو لوٹیں تو سی ایس آئی ایس نے ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ سی ایس آئی ایس کے خلاف دائر ہونے والے دسیوں لاکھ ڈالر کے مقدمے، جو 2017 میں سیٹلمنٹ پر اختتام پذیر ہوا تھا، کی تفصیلات کے مطابق ایک اتحادی سیکیورٹی فورس نے سوال کیا کہ سی ایس آئی ایس کیوں ایک حجاب پہننے والی مسلمان خاتون کو کام پر رکھنا چاہے گی اور سی ایس آئی ایس کی انتظامیہ سے وابستہ کسی شخص نے ان کا دفاع نہیں کیا۔
دسیوں لاکھ ڈاکر کا مقدمہ

مکبل کے نسلی امتیاز سے متعلق دعوے اس مقدمے کا ایک حصہ ہیں۔ 5 انٹیلی جنس افسران اور تجزیہ نگاروں کا دعوی ہے کہ انہیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے سی ایس آئی ایس میں برسا برس نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔
مکبل نے مقدمے میں یہ دعوی کیا کہ انہیں مخصوص مسلمان گروہوں یا افراد سے تعلق نہ جوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ 2005 میں دو روز تک 10 گھنٹون پر محیط انٹرویو لیا گیا، جس کے آغاز پر ادارے کے افسران نےپولی گراف ٹیسٹ کروانے کے لیے کہا۔ ان کے مطابق انہوں نے ٹیسٹ سے انکار کردیا تھا۔
مکبل کہتی ہیں کہ سی ایس آئی ایس کے افسران نے ان سے ان کے عقیدے سے متعلق تفتیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے حجاب پہننے کا فیصلہ کیوں کیا اور نماز کتنی باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے افغانستان میں کینیڈیائی فوجی اہلکاروں کی موجودگی، خودکش بمبادری اور مشہور اسلامی رہنماؤں سے متعلق بھی سوالات پوچھے گئے۔
اس انٹرویو کے بعد مکبل نے شکایت درج کروائی جو سی ایس آئی ایس کے ڈائریکٹر تک پہنچی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ڈائریکٹر نے جواباً کام کی جگہ پر تعصب کے حوالے سے یادداشتیں جاری کیں۔
مقدمے میں ادارے پر یہ الزام لگایا کہ مکبل کو سورس فائلز تک رسائی نہیں دی گئی اور ترقیوں اور دیگر غیرملکی تقرریوں سے محروم رکھا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے ہراسانی اور دیگر شکایات درج کروائیں اور کام کی جگہ کو زیادہ سے زیادہ نسلی تنوع سے بھرپور بنانے کے لیے مسلم تنظیموں اور اس وقت کے این ڈی پی کے عوامی تحفظ کے نقاد میتھیو ڈوبے کے ساتھ آواز اٹھانے کا کام انجام دیا۔
مکبل سی بی سی نیوز کو بتاتی ہیں کہ ‘اگرچہ خطرہ باہر ہونا چاہیے تھا لیکن مجھے دفتر مین ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔’
مقدمے کے نتیجے میں خفیہ ادارے نے ٹورنٹو کے اس ریجینل دفتر میں لوگوں کے سلوک اور رویوں سے متعلق بیرونی ذرائع سے تحقیقات کروائی جہاں مکبل کام کررہی تھیں۔ بعدازاں سی ایس آئی ایس نے تیسرے فریق کے جائزے کے نتائج کو عوامی سطح پر جاری بھی کیا۔
وگنالٹ کہتے ہیں کہ، تحقیقات میں انتقام لینے کی روش، پسندیدگی یا فیورٹ ازم، بلی اینگ اور دیگر غیر مناسب رویوں سے متعلق سنگین خدشات پائے گئے۔

سی ایس آئی ایس کے مطابق، تحقیقات کے بعد سے رپورٹنگ کے پہلے سے خاصے معیاری نظام کو مزید بہتر بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ ہراسانی سے متعلق ملازمین کے لیے نیا کوڈ آف کنڈٹ اور کام کی جگہ پر صحتمند ماحول کے فروغ کے غرض سے سپروائزرس کے لیے سپروائزرس کے لیے نیا لازمی تربیت کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔
سی ایس آئی ایس کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ادارے میں نسلی تنوع اور مشمولہ ماحول کو فروغ دینے کی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کیا گیا تھا تاکہ تعصب کے مسائل کو دور کیا جاسکے اور مشمولہ قیادتی ٹیم اور بھرتی کا عمل ممکن بنایا جاسکے۔ ان اقدامات سے مدد بھی ملی اسی لیے جہاں 2019 میں ہونے والی سالانہ نئی بھرتیوں میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کا تناسب 18 فیصد تھا وہیں 2020 میں یہ تناسب بڑھ کر 25 فیصد تک پہنچ گیا۔
‘نسلی تنوع کا نہ ہونا ایک کمزور پہلو ہے’
سی ایس آئی ایس کے مطابق حالیہ اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2019/2020 میں قریب 18 فیصد ملازمین نے اپنی شناخت اقلیتی برادری سے کروائی تھی، ان میں سے 7.6 فیصد افراد ایگزیکیٹو عہدوں پر براجمان ہیں۔
گزشتہ برس قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبے میں اقلتیوں کی نمائندگی کے فقدان کے مدارج اور ہراسانی اور امتیاری رویوں کے واقعات کی شرح ‘ناقابل قبول حد تک بلند’ ہیں۔

مبین شیخ سی ایس آئی ایس کے لیے دو برسوں تک ایک انڈر کور سیکیورٹی آپریٹو کے طور پر کام کرچکے ہیں، اس دوران انہوں نے ٹورنٹو 18 سمیت مختلف شدت پسند گروہوں کا تفتیش پر کام بھی کیا۔ وہ اس وقت سینیکا کالج سے پبلک سیفٹی کے پروفیسر کے طور پر وابستہ ہیں۔
شیخ نے بتایا کہ کینیڈا میں سی ایس آئی ایس اور دیگر انٹیلی جنس اور پولیس اداروں میں نسلی تنوع کا نہ ہونا ‘ایک کمزور پہلو’ ہے۔
شیخ کے مطابق ‘اس سے قومی سلامتی سے جڑے کام متاثر ہوتے ہیں۔ درست انٹیلی جنس کے حصول کے لیے آپ کو درست ذرائع مطلوب ہوتے ہیں۔ اگر اپ کے ذرائع میں وہ سماج نہیں جھلکتا جس کی خدمت پر آپ مامور ہیں تو پھر آپ کی انٹیلی جنس بھی کچھ خاص کام کی نہیں ہوگی۔’