چیچک یا کرونا: زیادہ خطرناک کیا؟

مفت ٹم ہارٹن گفٹ کارڈ $20 قرعہ اندازی میں شامل ہونے کیلےسبسکرائیب کریں

ایک ایسے وقت میں جب دُنیا کو کرونا وائرس کا سامنا ہے، کالموپس کے ریٹائرڈ ڈاکٹر میکس ظاہر 1960ء میں،پاکستان میں کئے گئے اپنے کام کو یاد کرتے ہیں جس میں انہوں نے ایک انتہائی تباہ کن بیماری کے خلاف کام کیا۔ ان کا کہنا ہے: ”ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بیماری کبھی ختم نہ ہوگی، لیکن یہ ختم ہو ہوگئی۔ انسانوں کی دریافت کردہ بیماریوں میں یہ انتہائی تباہ کن انفیکشن پھیلانے والی بیماری تھی“۔ 1960ء میں پاکستان میں تباہی پھیلانے والی چیچک کی وبا اور اس کے خلاف کی جانے والی کوششیں ابھی تک ریٹائرڈ ڈاکٹرمیکس ظاہرکے ذہن میں تازہ ہیں۔ یہ کوششیں آج کے حالات سے زیادہ مطابقت رکھتی ہیں۔ ویکسینیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ 

یہ مرض اتنا مہلک ثابت ہوا ہے کہ اس کے سامنے آنے کے ایک برس میں یہ بیس لاکھ افراد کی جان لے چکا ہے جبکہ دس کروڑ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ 

پارک کے رہائشی 84 سالہ ظاہر نے 1966-67 کا سال پاکستان کے شہرلاہورمیں چیچک کے خلاف کام کرتے گزارا۔چیچک ایک متعدی بیماری ہے جس میں جسم پر چھالے اورنشان پڑ جاتے ہیں۔ اس بیماری کا خاتمہ بھی 1980ء میں ویکسینیشن کے ذریعے ہی ہوا تھا۔اس تباہ کن بیماری سے نجات پانے کے لئے کئی دہائیاں پہلے عالمی ادارہ صحت نے ایک عالمی مہم شروع کی تھی جوابھی تک افریقہ،ایشیا اورجنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں جاری ہے۔ ظاہر اپنی یادیں دہراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:”پاکستان میں چیچک کے پھیلاؤ کوروکنے کے لئے حکمت عملی یہ اپنائی گئی تھی کہ وہ وائرس سے متاثرہ شخص کو فوراً پہچانیں اوراس کے قریبی رابطوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں۔پاکستان میں انہیں ملک بھرسے دیہات کے مقامی سربراہوں کے ذریعے تعاون دلایا گیا۔ جیسے ہی چیچک سے متاثرہ کوئی کیس منظرعام پہ آتا تووہ میڈیکل ٹیم کو متاثرہ فرد سمیت اس کے خاندان وحلقہ احباب واثرکو بندوق کی طرح کے انجیکٹر کے ذریعے ویکسینیشن کرواتے“۔

میکس ظہیر کی یہ تصویر ہنزہ کے سفر کے دوران لی گئی تھی۔

ظاہرکو یاد ہے کہ:پاکستان میں جیسے جیسے یہ وبا پھیل رہی تھی ویسے ویسے اسے مختلف دیہات میں جانے کا موقع ملا اوراس نے دیکھا کہ چیچک سے متاثرہ لوگ اس بیماری کے باعث اپنی تمام تربدبودارالائشوں سمیت کیچڑ زدہ غلیظ ماحول میں چارپائیوں پہ پڑے سسک رہے ہوتے۔ تڑپتی انسانیت کے ایسے مناظر نے اسے ہلاکررکھ دیا اوروہ سوچنے لگا کہ کیا اس وبا کاخاتمہ ممکن ہوگا اوراگرہوگا توکیسے؟ ایک وقت توایسابھی گزرا کہ لگتاتھا کہ یہ بیماری کبھی ختم ہی نہ ہوگی۔ یہ ناقابل یقین حد تک تباہ کن اورناقابل برداشت تھی۔ لاہورکے مضافات میں کئے گئے ظاہرکے دوروں میں انہوں نے دیکھا کہ اس بیماری سے لڑنے والے طبی عملے میں زیادہ ترنوجوان ڈاکٹرز شامل ہوتے تھے جن میں آگے بڑھ کر اس بیماری کے خلاف زیادہ تجربات حاصل کرنے کی لگن پائی جاتی تھی۔

پاکستان میڈیکل ریسرچ سینٹرلاہورمیں ظاہرکی ابتدائی ذمہ داریوں میں اس بیماری کی تفصیلات کو سمجھنا شامل تھا اور اس کام کے لئے امریکی حکومت اورعالمی ادارہ صحت نے مالی معاونت فراہم کی تھی۔

پاکستانی نژاد ظاہر 1959ء میں روٹس اسکالرشپ پر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی پہنچے اوراگلے تین برس متعدی امراض میں ڈاکٹریٹ کرنے میں صرف کیے۔ پھر انہوں نے کلینکل پتھالوجی میں تین سال تربیت حاصل کی۔ 1966ء میں وہ میری لینڈ میں ڈاکٹروں کے ایک اسکول میں اس گروپ کاحصہ بنے جو انہی دنوں پاکستان میں چیچک کے خاتمے کے لئے کام کررہاتھا۔ لاہورپہنچنے پر ظاہرپاکستان میڈیکل ریسرچ سینٹر میں لیب انچارج کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ ان کے لئے کسی ایسے مریض کو دیکھنا اورجانچنا دراصل خوف ناک منظر بن جاتا جو سر سے لے کر پاؤں تک خون سے بھرے چھالوں سے بھرے ہوں۔ ظاہرکے لئے اہم سوال یہ تھا کہ چھالوں میں پیپ کے بجائے خون کیوں؟ اوراس سوال کا جواب مریضوں کے خون کے نمونوں کے مطالعے سے یہ نکلا کہ خون جمنے کے عمل میں اس وائرس کی مداخلت کے باعث خون کا بہاؤ چھالوں کی جانب ہوتاہے اورانسانی بدن خون آلود چھالوں سے بھرجاتا ہے۔اس بیماری کے خاتمے کے لئے اس کو سمجھنا ظاہرکے لئے ضروری تھا۔

ظاہرکی خواہش تھی کہ وہ لاہورمیں اپنے والدین کے ساتھ طویل وقت گزاریں لیکن دریں اثنا ان کو یونیورسٹی آف میری لینڈ نے بالٹیمور یونیورسٹی میں کل وقتی فکیلٹی ممبرکے طورپر روزگار کی پیشکش کردی۔ ظاہرنے اپنی اہلیہ مورین کے ہمراہ چارسال امریکہ میں بھی گزارے۔ وہ کچھ تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ کمیونٹی ہسپتال میں بطورپتھالوجسٹ خدمات سرانجام دیں۔ان کی اہلیہ چونکہ کچھ عرصہ بی سی میں بطورنرس کام کر چکی تھیں چنانچہ ان کی خواہشات میں وہاں جانا بھی شامل تھا۔ تاہم ان دنوں کینیڈا میں تارکین وطن کو لائسنس کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا رہتا تھا اوراس مقصد کے لئے وہاں  Brunswickجاکر معاملات طے کرنا پڑتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میکس ظاہر نے کام لوپس آنے سے پہلے دوسال میری ٹائمز میں بھی گزارے۔ وہ 2003ء میں رائل ان لینڈ ہسپتال میں بطور پتھالوجسٹ بیس سال تک خدمات سرانجام دیکر ریٹائرڈ ہوئے۔ بطورایک ماہر ڈاکٹر میکس ظاہرنے یقینا ایک طویل عرصہ متعدی بیماریوں کے خلاف لڑتے گزارا تاہم پاکستان میں چیچک کے خلاف گزرا ان کا وقت آج بھی ان کے لئے یادگارہے۔ وہ آج بھی 8 مئی 1980ء کے دن عالمی ادارہ صحت کے 33ویں سیشن کو یاد کرکے سرشار ہوجاتے ہیں جب اس نے دنیا کو باضابطہ طورپر چیچک سے پاک قراردے دیا تھا۔ 

چیچک کے خاتمے کے چالیس سال بعد آج میکس ظاہر کو لگتاہے کہ دنیا کرونا وبا کے خاتمے کو بھی ایک دن ممکن بنالے گی۔ بیماریوں پر قابو پانے کے لئے قائم کردہ امریکی ادارے کی جانب سے بین الاقوامی عوامی صحت کے حوالے سے چیچک پرقابو پانے کے عمل کو ایک بڑی کامیابی گردانا جاتا ہے۔ یہ وہ بیماری تھی جس نے صدیوں سے شمالی امریکہ اوریورپ کو جکڑ رکھا تھا اور بلآخر بیسویں صدی کے وسط میں اس پر مکمل قابو پا لیا گیا۔ 

اس کی تباہ کارویوں کا یہ عالم تھا کہ اس سے متاثر ہونے والے ہر دس میں سے تین افراد ہلاک ہوئے اور جو بچ گئے وہ اپنے جسموں پر تاعمر بدنما داغوں کے ساتھ زندہ رہے۔ 

About محسن عباس 41 Articles
محسن عباس کینیڈا میں بی بی سی اردو، ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے اخبارات کیلئے لکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امیگریشن ، زراعت اور تحقیقی صحافت میں بیس برس سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔