“ایک بد قسمت جہاز کی کہانی”کوما گاتا مارو

مفت ٹم ہارٹن گفٹ کارڈ $20 قرعہ اندازی میں شامل ہونے کیلےسبسکرائیب کریں

محسن عباس

وینکوور، کینیڈا

یہ ایک بد قسمت جہاز کی کہانی ہے جس کا نام تھا ’ کوما گاتا مارو‘۔

کینیڈا اور برطانوی ہند کی تاریخ میں سن 1914کا سال بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس برس جنگ عظیم کا ٓاغاز ہوا۔ ان دنوں سلطنتِ برطانیہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر کوئی قانونی پابندی نہیں تھی۔ اسی سال تئیس مئی کو یہ جہاز طویل سفر طے کر کے 376 ہندوستانی مسافر لیکر کینیڈا کے مغربی شہر وینکوور کے ساحل پر پہنچا۔

اس وقت کینیڈا میں ہندوستانیوں کی آمد کو کچھ نسل پرست سفید فام لوگ سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس دوران امیگریشن کے ایسے قرانین بنائے گئی جن کی وجہ سے ہندوستانیوں سمیت کئی اور ممالک کے لوگوں کا کینیڈا میں داخلہ مشکل تھا۔

کینیڈا کے ساحل پر پہنچتے ہی جہاز کو بندرگاہ سے تین میل دور روک دیا گیا تا کہ ہندوستانی باشندے کینیڈا میں داخل نہ ہو سکیں۔ جہاز کے کپتان نے قانونی مدد طلب کی ۔ نسل پرستوں نے کپتان کے وکیل کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔

جیسے جیسے وقت گزرا جہاز پر موجود مسافروں کی بے چینی بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ جہاز پر کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا اور نوبت بھوک، بیماری اور موت تک آن پہنچی۔

بالاخرکینیڈا میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر یہ جہاز واپس ہندوستان کی جانب روانہ کر دیا گیا۔

جب یہ جہاز ہندوستانی شہر کلکتہ کے ساحل پر پہنچا تو انگریز سرکار نے اس کے مسافروں کو پنجاب کے مفرور باغی سمجھ کر اُن پر گولی چلا دی۔ جس کے نتیجے میں انیس افراد مارے گئے۔ برطانوی ہند کی حکومت کا خیال تھا کہ یہ لوگ’غدر پارٹی‘ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اُن دنوں شمالی امریکہ میں سرگرمِ عمل تھی۔

کینیڈا نے اپنی تاریخ کے اس سیاہ باب پر زیادہ توجہ نہ دی ۔ لگ بھگ ستر برس تک اس واقعہ کو فراموش کردیا گیا۔ انیس سو تراسی میں بھارتی صوبے پنجاب کے گاوں ٹھٹھہ نواں، ضلع کپور تھلہ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان صاحب سنگھ تھنڈ کینیڈا ہجرت کرکے وینکوورکے نواحی علاقے سرے میں ٓاباد ہوا۔

صاحب سنگھ تھنڈ اور ان کے ساتھیوں نے تاریخ کے اس فراموش کردہ ورق سے گرد جھاڑی اور ایک تحریک کا ٓاغاز کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کینیڈین حکومت اس واقعہ پر قوم سے معافی مانگے۔

کینیڈا میں قائم پروفیسر موہن سنگھ میموریل فاونڈیشن کے بانی و

صدر صاحب سنگھ تھنڈ نے لگ بھگ تیس برس کا عرصہ محنت کی اور کینیڈین حکومت کو اس جہاز کے واقعہ پر پارلیمان میں معافی مانگنے پر مجبور کرنے والی مہم کی سربراہی کی۔

 بالاخر ان کی جدوجہد رنگ لائی اور مئی سن دو ہزار سولہ کو اس وقت کے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمان میں کوما گاتا مارو جہاز کے حادثے پر قوم سے باقاعدہ معافی مانگی۔

جولائی کے مہینے میں جہاز کی ملک بدری کی برسی کے موقع پر صاحب سنگھ تھنڈ نے بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا کہ “ہم اپنا بنیادی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور اسی پارلیمان میں معافی مانگی گئی جس میں امیگریشن کا وہ قانون بنایا گیا جس کی بنیاد پر ہندوستانیوں کو کینیڈا میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔”

صاحب تھنڈ اور ان کے ساتھیوں نے کئی دہائیوں تک برٹش کولمبیا صوبے کے جنوبی ایشئیائی آبادی والے شہر سرے میں ایک بھرپور مہم چلائی اور ہر سال کمیونٹی میلہ منعقد کرکے جہاز کے مسافروں کو یاد کیا اور اس حادثے میں ہلاک ہونیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرکے حکومتی معافی کیلئے اس مہم کو بڑھ چڑھ کر اجاگر کیا۔۔

اس سلسلے میں جب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمان میں معافی مانگی تو صاحب تھنڈ کو پارلیمان میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا اور ان کی کوششوں کو سرکاری طور پرسراہا گیا۔

ایک سو دو سال کے بعد اس واقعہ پر معافی کو کینیڈا کی تاریخ کا ایک اہم باب سمجھا جاتا ہے۔ صاحب تھنڈ نے مزید کہا کہ وہ سن دو ہزار سولہ کو ایک تاریخی سال قرار دیتے ہیں۔ وہ تئیس جولائی کے دن کو کینیڈا کی تاریخ کا سیاہ اور دکھ بھرا دن قرار دیتے ہیں۔

کینیڈا کے دارالحکومت آٹوا میں پارلیمان میں  وزیر اعظم کی معافی کے دن کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ” میرے ذہن میں یہ چل رہا تھا کہ کس طرح ہمارے بزرگوں کے خلاف قانون بنائے گئے اور جنوبی ایشئیائی باشندوں کو کینیڈا داخل ہونے سے روکا گیا۔ ان بزرگوں کی جدو جہد کےباعث ہم آج یہاں کھڑے ہیں۔ “

“جب ہم نے تاریخ کے اوراق کو پلٹا تو پتہ چلا کہ کس طرح ہمارے بزرگوں کے خلاف 1908-1910 کے دوران کالے قوانین بنائے گئے۔ ہمارے بزرگوں کے برابر حقوق نہیں دئیے گئے۔ ان حقوق میں امیگریشن کے حقوق سر فہرست تھے۔”

صاحب تھنڈ نے انڈیا اور کینیڈا کی کئی صوبائی اسمبلیوں میں جاکر اس واقعہ پر روشنی ڈالی اور باقاعدہ معافی کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔ ان کی اس کوشش کےسلسلے میں بھارت کی پنجاب اسمبلی میں بھی ان کی خدمات کو سرکاری طور پر سراہا گیا۔

کینیڈین حکومت نے اس معافی کے موقع پر ڈاک ٹکٹ کےساتھ ساتھ کئی اور تعلیم اور معلوماتی پروگرامز بھی شروع کئے تاکہ کینیڈین عوام کو تاریخ کے سیاہ باب بارے آگاہی حاصل ہو سکے۔

وینکوور ڈاون ٹاون کے علاقے میں سمندر کے کنارے اس جہاز کے بارے ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جس پر جہاز پر سوار مسافروں کے نام، شہر اور دیگر معلومات درج کی گئی ہیں۔

صاحب تھنڈ کا خیال ہے کہ یہ حادثہ کینیڈین حکومت کی غلطی کی وجہ  سے پیش آیا۔

انہوں نے فخر سے بتایا کہ ہماری ٹیم کی جدوجہد رنگ لائی۔ شروع میں اس وقت کے وزیر اعظم سٹیفن ہارپر نے ہمارے میلے پر کمیونٹی سے معافی مانگی جس کو ہم نے رد کر دیا اور پر جب لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے جسٹن ٹروڈو وزیر اعظم بنے تو انہوں نے حسب وعدہ حکومت بنانے کے نوے دن کے اندر اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگی۔

اس سلسلے میں پروفیسر موہن سنگھ میموریل فاونڈیشن اب ایک اور مہم چلا رہی ہے۔ اس میں ان کا مطالبہ ہے کہ وینکوور بندرگاہ پر جہاں جہاز کھڑا رہا اس کے قریب واٹر فرنٹ سٹریٹ کو کوما گاتا مارو کے نام سے منسوب کیا جائے۔

اس سلسلے میں ان کی کینیڈا کے وزیر أعظم سے حال ہی میں ایک ملاقات بذریعہ وڈیو لنک ہوئی ہے۔ اور اس مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔

صاحب تھنڈ بہت پر امید ہیں کہ ان کی ٹیم کی مخنت رنگ لائے گی اور اس سڑک کا نام جلد ہی تبدیل ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں ان کو سرکاری، سیاسی اور سماجی طور پر بھرپور تعاون مل رہا ہے۔

جب جہاز واپس ہندوستان کے شہر کلکتہ پہنچا تو انیس مسافر وہاں مار دئے گئے۔ اس افراد ہلاک شدگان کو کینیڈا میں ہر سال مئی اور جولائی کے مہینوں میں اس یادگار پر خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی کئی اور یادگاری منصوبے جاری ہیں۔ جن میں انٹاریو صوبے کے شہر برامپٹن میں کوما گاتا مارو پارک بھی قائم کیا گیا ہے۔

About محسن عباس 41 Articles
محسن عباس کینیڈا میں بی بی سی اردو، ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے اخبارات کیلئے لکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امیگریشن ، زراعت اور تحقیقی صحافت میں بیس برس سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔