کینیڈا امیگریشن: شدید سردی، انتہائی کم آبادی اور بہتر حکومتی مراعات کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

مفت ٹم ہارٹن گفٹ کارڈ $20 قرعہ اندازی میں شامل ہونے کیلےسبسکرائیب کریں

کیا کہا کینیڈا؟ لیکن وہاں تو شدید سردی ہوتی ہے اور یہ ملک انتہائی کم آباد ہے یعنی وہاں دیکھنے کو بھی لوگ نہیں ملتے۔

امیگریشن یا کسی اور ذریعے سے کینیڈا نقل مکانی کرنے والوں یا ایسا سوچنے والوں نے کسی نا کسی سے اس طرح کا بیان ضرور سنا ہو گا۔

اور عین ممکن ہے کہ آپ نے یہ بھی سن رکھا ہوا کہ کینیڈا جانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہاں پہنچ کر حکومت کافی مالی مدد دیتی ہے اور دیگر رعایتیں بھی ملتی ہیں۔

لیکن کیا یہ سب سچ ہے یا نہیں؟ بی بی سی نے اس رپورٹ میں کینیڈا سے جڑے تین بڑے مفروضوں کا جائزہ لیا ہے۔

کیا واقعی کینیڈا میں سردی ناقابل برداشت ہوتی ہے؟

اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی۔ ہاں اس لیے کہ سردی تو ہوتی ہے، اور نہیں اس لیے کہ ضروری نہیں کہ یہ ناقابل برداشت ہو۔

کینیڈا میں موسم سرما طویل اور برفیلا ہوتا ہے تاہم اس عام مفروضے پر یقین کرنے سے قبل چند اہم نکتے جاننا ضروری ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ کینیڈا کے ہر خطے میں ایک جیسا موسم نہیں ہوتا۔ کینیڈا دنیا میں روس کے بعد رقبے کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے۔

اس لیے ہر مقام یا شہر کا موسم مختلف ہوتا ہے جس کا انحصار اس جگہ کی ساحل سمندر اور قطب شمالی سے فاصلے پر ہوتا ہے۔

فل آسٹن برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شدید سردی ملک کے وسط میں پڑتی ہے، ساسکاٹچیوان اور مانیٹوبا میں، کیوںکہ وہ سمندر سے زیادہ دور ہیں۔

دوسری جانب مغرب میں واقع وینکوور میں اتنی زیادہ سردی نہیں ہوتی اور برف بھی کم ہی پڑتی ہے۔

فل آسٹن کہتے ہیں کہ وینکوور میں مغرب سے ہوا آتی ہے جہاں بحر اوقیانوس ہے جو کبھی منجمند نہیں ہوتا اور گرم پانی رہتا ہے۔ وہاں سردی اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب آرکٹک سے ہوا اپنے ساتھ سردی لاتی ہے۔

تاہم سب سے بُرا موسم ملک کے شمال میں ہوتا ہے جہاں یاکون اور شمال مغربی علاقہ جات آرکٹک سے قربت کی وجہ سے تاریک، سرد اور برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ موسم سرما میں آپ کو سورج کی روشنی تک کتنی رسائی حاصل ہے کیوںکہ سردی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دن زیادہ تاریک ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ انفرادی پسند کیا ہے: کم برف اور کم روشنی یا زیادہ برف اور صاف آسمان۔

فل آسٹن کہتے ہیں کہ ساسکاٹچیوان اور مانیٹوبا میں آسمان صاف اور دن روشن ہوتا ہے جبکہ وینکوور میں سردیوں میں برف کم پڑتی ہے لیکن دن کے اوقات میں بھی سورج زیادہ دیر نہیں نظر آتا۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ روشن دن پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا موڈ دن پر منحصر ہوتا ہے۔

اور آخر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ موسم سرما کینیڈا کی ثقافت اور زندگی کا حصہ ہے اس لیے اسے تکلیف دہ نہیں سمجھا جاتا۔

ہر جگہ حدت (ہیٹنگ) کی سہولت موجود ہے اور جن شہروں میں زیادہ برف پڑتی ہے، وہاں پر برف ہٹانے کے انتظامات بھی کیے جاتے ہیں تاکہ آمد و رفت برقرار رہے۔ کئی مقامات کو اس طرح سے جوڑ دیا گیا ہے کہ گلی میں نکلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی یعنی بیشتر کام اِن ڈور ہو جاتا ہے۔

مونٹریال کا سب وے اس کی ایک مثال ہے جس کے سٹیشن شاپنگ سینٹر اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں تک رسائی آسان بناتے ہیں۔

پھر سرمائی کھیلوں کا معاملہ ہے کیوںکہ یہاں بچے کم عمری سے ہی مختلف کھیلوں کی مشقیں شروع کر دیتے ہیں اور سرد موسم میں ان کے پاس باہر کھیلنے کودنے کے مواقع رہتے ہیں۔

فل آسٹن خود بھی 30 سال قبل کینیڈا آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے لیے یہ حیران کن تھا کہ آئس ہاکی کینیڈا میں کتنی اہم ہے۔ یہ ایک مذہب کی طرح ہے اور لوگ پارک میں، گھروں کے اندر اس کی پریکٹس کرتے ہیں۔‘

’یہ لوگ موسم سرما کو اپنی شناخت کا اہم جزو سمجھتے ہیں۔‘

کینیڈا کی پالیسی ایسی ہے کہ لوگ یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ملک کا بڑا حصہ انسانوں سے خالی ہے جہاں زمین زیادہ اور لوگ کم ہیں۔

لیکن یہ مکمل سچ نہیں۔

دیوا مارسیلا گارسیا بارسیلونا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا کا مسئلہ آبادی کا حجم نہیں ہے بلکہ آبادی کی عمر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں شرح پیدائش کم ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ کم ہیں جو کم عمر ہیں جبکہ بہتر سہولیات کی وجہ سے اوسط عمر زیادہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ادھیڑ عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔

گارسیا کا کہنا ہے کہ دنیا میں اوسطاً ہر عورت دو بچے پیدا کرتی ہے جو آبادی کا تسلسل برقرار رکھنے کی ضروری شرح سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کینیڈا میں یہ شرح گذشہ 20 سال سے کم رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا میں یہ اوسط 1.47 ہے اور اسی لیے ملک سرکاری سطح پر امیگریشن یا نقل مکانی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے تاکہ ملک میں ترقی کا عمل جاری رہے اور کام کرنے والے لوگ موجود ہوں۔

ہلی بات تو یہ ہے کہ عام طور پر جب پیسے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اس حکومتی مدد کی جانب ہوتا ہے جو کینیڈا جانے والوں کو مل سکتی ہے لیکن پیسے کی شکل میں نہیں۔

کینیڈا صوبوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر صوبے کی مقامی حکومت خود مختار ہوتی ہے جو اپنا بجٹ خود استعمال کرتی ہے۔

اسی لیے ہر صوبے کی پالیسی کے مطابق وہاں جانے والوں کو امداد ملتی ہے اگر وہ اس کے مستحق سمجھے جائیں۔ الیہینڈرو ہرنینڈیز کارلیٹن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت براہ راست امداد نہیں دیتی بلکہ اس کام کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کو چُنا جاتا ہے۔

عام طور پر یہ ایجنسیاں لوگوں کو کام ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہیں۔ جو لوگ کنییڈا جاتے ہیں، ان کی دستاویزات منظم کرنے میں مدد کی جاتی ہے اور پھر ان کو ٹریننگ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے لیے روزگار حاصل کر سکیں۔

کیوبیک میں کسی حد تک براہ راست مدد دی جاتی ہے۔ ہرنینڈیز کے مطابق اس کی وجہ اس صوبے میں فرانسیسی قومیت کا معاملہ ہے۔

واضح رہے کہ کیوبیک میں فرانسیسی زبان کو پہلی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور اگر کوئی وہاں جا کر پہلے فرانسیسی زبان پڑھے تو ان کو ہفتہ وار 150 ڈالر ادا کیے جاتے ہیں اور آنے جانے کا خرچ الگ دیا جاتا ہے۔

تاہم اس پروگرام میں شمولیت کی کچھ شرائط ہیں اور تعلیمی سرگرمیوں میں شمولیت لازمی ہوتی ہے۔ تاہم اس پروگرام میں حکومت میں آنے والی جماعت کی پسند کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے۔

کچھ مقامات پر موسم سرما سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں ایسے پروگرام بھی موجود ہیں جن کے تحت سستا فرنیچر اور کپڑے حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم ان پروگرامز میں شامل ہونے کے لیے درخواست دینا پڑتی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ کینیڈا جانے والے ان تمام سہولیات سے استفادہ کر سکتے ہیں جو عام عوام کو حکومت کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

ان میں تعلیم، بچوں اور معاشی طور پر کمزور افراد کے لیے امدادی پروگرام شامل ہیں۔ تاہم ہر صوبے میں مدد کا اپنا نظام ہے اور شرائط جن پر پورا اترنا ضروری ہوتا ہے۔