کینیڈا میں اسلام مخالف حملوں کی ایک نئی لہر

منٹو، کینیڈا  (Minto)
محسن عباس
کینیڈا کے شہر لندن میں دہشت گردی کی حالیہ واردات میں چار پاکستانی نژاد تارکین وطن کی ہلاکت کے بعد اسلام مخالف حملوں کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں کینیڈا بھر میں پانچ نئے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات بڑھنے پر مسلمانوں میں خوف اورتشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس سلسلے میں کینیڈین صوبے انٹاریو کی پولیس نے ایک مسلمان خاندان کے ساتھ طنزیہ جملے کسنے والی ایک وائرل ویڈیو پر تفتیش شروع کردی یے۔
صوبے انٹاریو میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے منٹو Minto کے علاقہ ہیرسٹن میں ایک شخص نے لندن واقع کے بعد یہ ویڈیو اپنے گھر کی کھڑکی سے بنائی تھی۔ اس ویڈیو میں دو مسلمان خواتین اور بچوں کے پاس سے جب ایک ٹرک گزرتا ہے تو اس پر ویڈیو بنانے والا شخص قہقہے لگاتے ہوئے لندن کینیڈا ہونے والی دہشت گردی کی واردات بارے مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے سنا جاسکتا گیا ” نتھانئیل ویلٹ مین کہاں ہے؟ اوہ، یہاں ایک ٹرک موجود ہے۔ بڈی یو مسڈ دیم۔ بیک اپ”
 “Holy (expletive)! Where is Nathaniel Veltman when you need him? Oh, there’s a truck, buddy, you missed them, back up!”
تین چھوٹی آبادیوں پر مشتمل، قریبا نو ہزار آبادی والا یہ چھوٹا سا قصبہ “منٹو Minto” ٹورانٹو شہر کے شمال مغرب کی سمت قریبا ایک سو ساٹھ کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس قصبے کی اکثریت سفید فام افراد پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں اکثریت  زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔
جب ہیرسٹن علاقے کے ایک شخص نے یہ ویڈیو کو ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی تو یہ فورا وائرل ہوگئی۔ جس کو متاثرہ مسلمان خاندان کے ایک مرد نے پہچان لیا۔ اس نے ویڈیو کی خبر ہوتے ہی اپنے کینیڈین دوست ٹیری کی مدد سے صوبے انٹاریو کی پولیس کو آگاہ کیا۔ اس کے چند گھنٹوں بعد ہی پولیس نے ویڈیو بنانے والے شخص کو ڈھونڈ نکالا اور اس کے خلاف قانونی کاروائی شروع کردی گئی ہے۔
متاثرہ خاندان کے فرد احمد المحمد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ” پولیس کو اطلاع ملتے پی وہ پندرہ منٹ میں ہماری مدد کو پہنچ گئے۔ اس ویڈیو کی وجہ سے خواتین خوفزدہ ہیں۔ وہ اس ملک میں بہتر زندگی کیلئے آئی ہیں نہ کہ خوف میں زندگی گزارنے۔ مسلمان عورتوں کو بھی آزادانہ زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہمیں بہت حیرانی ہوئی ہے کہ اتنی چھوٹی کمیونٹی میں ہمارے ساتھ ایسا واقعہ ہوا ہے۔ “
وہ امید کرتے ہیں کہ ایسا واقعہ مزید نہیں ہوگا۔ اس پرامن ریلی کے بعد وہ اب پہلے سے بہتر محسوس کر رہے ہیں۔
ہیرسٹن کی ٓابادی سترہ سو کے لگ بھگ ہے۔ اس علاقے میں صرف چار مسلمان خاندان آباد ہیں ۔  اور اس کے قریب واقع دیگر چھوٹی کمیونٹیوں میں بھی اسی طرح تین چار خاندان آباد ہر کمیونٹی میں رہتے ہیں۔ جن کو کل ملا کر اس علاقے میں مسلمان خاندانوں کی  تعداد پندرہ کے قریب ہے۔ ہر کمیونٹی کا فاصلہ قریبا تیس منٹ کی مسافت ہے۔ ان خاندانوان کا تعلق عرب ملک شام سے ہے۔ یہ خاندان 2017 میں کینیڈا منتقل ہونے کے بعد ان قصبوں میں آباد ہوئے۔
 احمد نے مزید کہا کہاب تک ہم قصبے میں محفوظ محسوس کررہے تھے اور مگر اب لندن شہر میں دہشت گردی کی واردات کے بعد بے یقینی کا شکار ہیں۔ “
منٹو قصبے کے مئیر جارج برج کو اس واقعہ نے بہت مایوس کیا ہے۔ جونہی ان کی ٹیم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے فورا اس ریلی کا اہتمام کیا۔
انہوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “جب یہ ہماری چھوٹی سی کمیونٹی میں ہوا ہمیں  اس کا افسوس ہوا کیونکہ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہماری اس ریلی۔کا مقصد تمام رنگ ونسل کے لوگوں کیلئے تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہماری ثقافتی راونڈ ٹیبل کمیٹی کو اس کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت قلیل وقت میں اس کا اہتمام کیا۔ “
انہوں نے کہا کہ ہمیں  اس بارے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ لوگوں نے بے پناہ تعاون کیا اور ایک بہت بڑی تعداد شریک ہوئی۔
” ہم تارکین وطن کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے اور ہمارے علاقے کی تیزی سے ہوئی ترقی میں تارکیں وطن کا بڑا کردار ہے۔ میں بھی تارکین وطن خاندان کی اولاد ہوں اور ہمیں مزید تارکین وطن کی ضرورت ہے۔ “
انہوں کے کہا کہ یہ ریلی بہت ضروری تھی تاکہ منفی تاثر کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔
پیگی رافٹیس اس قصبے کی تقافتی راونڈ ٹیبل کمیٹی کی چئیرپرسن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کی ریلی کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ منٹو قصبہ ہر طرح کے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ہم مسلمان خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
“وہ (مسلمان) ہماری کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ ہماری توقع سے زیادہ لوگ اس ریلی میں شریک ہوئے۔ ہم ہر رنگ اور نسل کے امتزاج پر یقین رکھتے ہیں۔ “
ویلنگٹن کاونٹی او پی پی ( انٹاریو صوبائی پولیس) کے کانسٹیبل کرک میکڈونلڈ نے ریلی کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ویڈیو لگانے والے شخص کا پتہ لگالیا گیا ہے اور یہ کہاں سے اپ لوڈ ہوئی۔ ابھی تفتیش جاری یے۔ اور تفتیش کار کراون اٹارنی کے دفتر سے اس بارے میں رابطے میں ہیں۔
پولیس نے عوام سے کہا ہے کہ کسی بھی اس قسم کی واردات کے بارے میں فورا پولیس کو اطلاع کریں۔ تاکہ اس قسم کی نفرت انگیز وارداتوں کو روکا جا سکے۔
سینکڑوں افراد پر مشتمل اس ریلی میں بچوں، بوڑھوں کی شرکت نمایاں تھی۔ ریلی میں لندن میں ہلاک ہونے والے خاندان کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔
رواں ہفتے ٹورانٹو  شہر کے علاقے سکاربورو کی ایک مسجد “اسلامک انسٹی ٹیوٹ آف ٹورانٹو” میں ایک مرد اور ایک عورت نے زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تو مسجد کے سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ جس کے بعد دونوں افراد کو ٹورانٹو پولیس نے گرفتار کرلیا۔
پولیس کے مطابق دونوں ملزمان نے نشے کی حالت میں تھے۔ مرد نے بلڈنگ کو دھماکے سے اڑانے کی دھمکی بھی دی۔ جبکہ عورت نے مسجد کے عملے کو گولی مارنے کی دھمکی دی۔ جس پر مسجد کے عملے نے بھاگ کر پولیس کو اطلاع دی ۔ ٹورانٹو کے رہائشی چوبیس سالہ نکو ڈیمو بروزیسی اور بائیس سالہ سمینتھا سٹون پر نقب زنی، جان سے مارنے کی دھمکی اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
البرٹا صوبے کے شہر ایڈمنٹن کی ایک مسجد کی دیوار پر شرپسند عناصر سواستیکا (نازی پارٹی کا نشان) بنا گئے۔ پولیس اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔
گزشتہ جمعہ کی شام کینیڈا کے مغربی صوبے البرٹا کے شہر ایڈمنٹن میں ایک پچاس سالہ حجاب والی صومالی نژاد مسلمان عورت پر بھی حملہ کیا گیا۔ ایک نامعلوم شخص نے اس عورت کی گردن دبائی اور پھر اس کو سڑک پر پٹخ دیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شام نو بجے کے قریب مذکورہ خاتون نارتھ ماونٹ کے علاقے میں چہل قدمی کرنے نکلی تھی۔ زخمی خاتون کو زخمی حالت میں مقامی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ایڈمنٹن پولیس اس نفرت انگیز واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔
ٹھیک اسی روز برٹش کولمبیا صوبے کےسب سے بڑے شہر وینکوور بس سٹاپ پر کھڑی ایک حجاب پوش خاتون کو ایک شخص نے پریشان کیا اور ڈرایا دھمکایا۔ یہ سارا معاملہ سی سی ٹی وی کیمرہ پر ریکارڈ ہوگیا ۔
یاد رہے کہ کینیڈا میں سن دو ہزارسترہ میں فرانسیسی صوبے کیوبک کی ایک مسجد پر حملے کے بعد سے مسلمانوں کی خلاف نفرت انگیز واقعات میں تیزی آئی ہے۔ اس مسجد میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

About محسن عباس 206 Articles
محسن عباس کینیڈا میں بی بی سی اردو، ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے اخبارات کیلئے لکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امیگریشن ، زراعت اور تحقیقی صحافت میں بیس برس سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔